Wednesday, March 9, 2016

داستان ایک گورنر کی


داستان ایک گورنر کی

ولید بن عبدالمک کا زمانہ تھا۔ مسلمانوں کی حکومت دور دور تک پھیلی ہوئ تھی۔ ولید بن عبدالملک نے اپنے تمام گورنروں کو انعامات سے نوازنے کے لیے جمع کیا تھا۔ تمام گورنر خلیفہ المسلمین کے سامنے بیٹھے ہوے تھے خلیفہ نے سب میں جبہ تقسیم کردی ۔ باتیں ہورہی تھی کہ ایک گورنر کو چھینک آگئی ۔ اس نے گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارا جب دیکھا کہ رومال نہیں ملا تو نظر بچا کر اسی جبہ سے اس نے ناک پونچھ لی، خلیفہ المومنین ولید بن الملک نے اسے دیکھ لیا وہ کہنے لگا اتار لو اس خبیث کا خلعت، یہ ہماری خلعت کی ہتک کرتا ہے اور ہمارے دیئے ہوئے تحفہ سے ناک پونچھتا ہے۔ اس گورنر کو دھکے دیں کر دربار سے دفع دور کردیا گیا۔ ایک گورنر خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا کچھ وقت بعد وہ خلیفہ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا خلیفہ میں اپنا استعفا پیش کرتا ہوں۔
ولید نے کہا یہ کیا بے وقت کی راگنی ہے کیا ہوا تم کو اور کیوں تم استعفا پیش کرتے ہو۔ گورنرنے کہا بادشاہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس نے کہا آخر ہوا کیا۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ یہ شخص آج سے دو سال پہلے اس جگہ سے نکلا تھا اور ایک ایسی مہم پر بھیجا گیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے بہادر جرنیل شکست کھا کر آئے تھے اور ایک ایسے علاقہ کی طرف بھیجا گیا تھا جس کا دوبارہ فتح کرنا بالکل ناممکن سمجھا جاتا تھا یہ دو سال باہر رہا یہ جنگلوں میں گیا، یہ پہاڑوں میں گیا اور اس نے دشمن سے متواتر لڑائیاں کیں یہ ہرروز مرتا تھا۔ ہر صبح مرتا تھا اور ہر شام مرتا تھا۔ ایک متواتر قربانی کے بعد اس نے اتنا بڑا ملک فتح کیا اور آپ کی مملکت میں لا کر شامل کیا۔ اس کے بدلہ میں آپ نے اس کو چند گز کپڑا دیا جس کی حیثیت ہی کیا تھی مگر محض اس لئے کہ اس نے مجبوراً اس خلعت سے ناک پونچھ لیا آپ اس پر اتنا خفا ہوئے پھر میں کیا جواب دوں گا اس خدا کے سامنے جس نے مجھے یہ جسم ایسا دیا ہے جس کو کوئی بادشاہ بھی نہیں بنا سکتا جس نے مجھے یہ خلعت دی ہے اور میں اس کو تیری خاطر گندا کر رہا ہوں میں اس کے متعلق اپنے خدا کو کیا جواب دوں گا۔ یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گئے مگر یہ گورنر اتنے ظالم اور جابر تھے کہ جب مسجد میں گئے اور انہوں نے کہا کہ میں توبہ کرنا چاہتا ہوں تو ہر ایک نے یہی کہا کہ کمبخت کیا شیطانوں کی توبہ بھی کہیں قبول ہوسکتی ہے، نکل جا یہاں سے۔ انہوں نے ہر جگہ پھرنا شروع کیا مگر کسی کویہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ان کی توبہ قبول کرے۔
آخر وہ جنید بغدادیؒ کے پاس پہنچے کہ آپ کے پاس ایک نعمت ہے میں اسکو لینے آیا ہوں آپ جتنی قیمت چاہو دیں سکتا ہوں،جنید بغدود نے کہا پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم آپ سے قیمت لیں تو آپ دیں ہی نہیں سکتے


Read moree>>

No comments:

Post a Comment